Surah Bani Israel Series

ALLAH EK HAI | Surah Bani Isra'eel (17) | Hindi/Urdu | Episode 24


Listen Later

مشرکین عرب دنیوی بادشاہوں اور بادشاہتوں پر قیاس کر کے اللہ تعالیٰ کو تو صاحب تخت و تاج یعنی معبود اعظم مانتے تھے اور اس کے تحت بہت سے دوسرے دیوی دیوتاؤں کو بھی مانتے تھے جن کی نسبت ان کا گمان تھا کہ وہ خدائی میں شریک ہیں اور اپنے پجاریوں کے لیے وہ صاحب عرش کے تقرب کا بھی ذریعہ بنتے ہیں اور ان کی خواہشیں اور ضرورتیں بھی اس سے پوری کرا دیتے ہیں۔

 قُل لَّوۡ كَانَ مَعَهُۥۤ ءَالِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّٱبۡتَغَوۡاْ إِلَىٰ ذِى ٱلۡعَرۡشِ سَبِيلاً (٤٢) 
ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ 
یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدا ئی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارداے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا ۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدا ئی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خدا وند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔
جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اُس وقت تک پید ا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان ساری قوتیں مل کر اُس کے لیے کام نہ کریں، اُس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اُس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔
سُبۡحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (٤٣)
پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔
اس مختصر سے جملہ میں حقیقت الله تعالیٰ نے چار مختلف تعبیروں سے ناروا نسبتوں سے اپنے دامن کبریایی کی پاکیزگی بیان کی ہے:
۱۔خدا ان نقائص اور نارواں نسبتوں سے منزہ ہے (سُبْحَانَہُ)
۲۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ اس سے بالاتر ہے(وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُولُونَ)
۳۔ لفظ ”علواً“ مفعول مطلق ہے اور تاکید کے لیے آیا ہے ۔
۴۔ اور آخر میں ”کبیراً“ کہہ کر مزید تاکید کی گوئی ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ”عما یقولون“ (جو کچھ وہ کہتے ہیں) ۔ ایک وسیع معنی رکھتا ہے ۔ اس میں ان کی تمام ناروا نسبتیں اور ان کے لوازم شامل ہیں ۔
#surahbaniisrael #urduseries #episode24 #UrduHindi

...more
View all episodesView all episodes
Download on the App Store

Surah Bani Israel SeriesBy Quran and Seerat