دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلبگاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخر ت کے طلبگاروں کو رزق سے محروم کردیں، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں۔
كُلاًّ نُّمِدُّ هَـٰٓؤُلَآءِ وَهَـٰٓؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّكَۚ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحۡظُورًا (٢٠)
اِن کو بھی اور اُن کو بھی ، دونوں فریقوں کو ہم ﴿دُنیا میں﴾ سامانِ زیست دیے جارہے ہیں، یہ تیرے ربّ کا عطیہ ہے، اور تیرے ربّ کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
حق دار کو حق دیا جاتا ہے:یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں ، یہ تیرے رب کی عطا ہے ، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے ۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا ، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ڈال نہیں سکتا ۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں ، نہ کسی کے روکے رکیں ، نہ کسی کے ہٹائے ہیٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں ۔ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں ، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں ، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی ۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے ، کوئی بوڑھا بڑا ہو کر ، کوئی اس کے درمیان ۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں ، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہو گا ۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں ۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو ۔ پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ، طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔
ٱنظُرۡ كَيۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍۚ وَلَلۡأَخِرَةُ أَكۡبَرُ دَرَجَـٰتٍ وَأَكۡبَرُ تَفۡضِيلاً (٢١)
دیکھو ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، اور آخرت درجوں میں (دنیا سے) بہت برتر اور برتری میں کہیں بڑھ کر ہے
یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہوجاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ اُن سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ جو کچھ بھی پاتے ہیں صداقت ، دیانت اور امانت کےساتھ پاتے ہیں، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے ، بے ایمانیوں سے، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں ۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے، اس میں سے حق داروں کے حقوق ادا ہوتے ہیں، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیاجاتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اسی طرح تمام حیثیتوں سے آخرت کے طلب گار کی زندگی خدا ترسی اور پا کیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدردرخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظرآتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیا کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں۔
لَّا تَجۡعَلۡ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُومًا مَّخۡذُولاً (٢٢)
تُو اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔