مَّنِ ٱهۡتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَہۡتَدِى لِنَفۡسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡہَاۚوَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزۡرَ أُخۡرَىٰۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولاً (١٥)
جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ﴿لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے﴾ ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔
اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے:
یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص اللہ پر ، یا رسول پر ، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کرکے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اللہ اور رسول اور داعیانِ حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتےہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آجائے او ر حق اختیار کر لے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لےگا تو وہ اپنا آپ ہی بدخواہ ہوگا۔
بوجھ نہ اُٹھائے گا:
یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا ۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی ہی نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہر حال اللہ کی آخری عدالت میں اُس مشرک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی ذمہ داری الگ متعین کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہوگا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہوگا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑجائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ دار کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں ، وہ بہر حال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہےگا جس کی جواب دہی اللہ کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتاہو۔
بعض آیات میں کچھ لوگوں کے اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہ بھی اٹھانے کا ذکر ہے، جیسا کہ
لِيَحۡمِلُوٓاْ أَوۡزَارَهُمۡ كَامِلَةً يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِۙ وَمِنۡ أَوۡزَارِ ٱلَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيۡرِ عِلۡمٍۗ أَلَا سَآءَ مَا يَزِرُونَ (سورة نحل: ٢٥)
نتیجہ اس (کہنے کا) یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اور جن کو یہ لوگ بے علمی سے گمراہ کر رہے تھے ان کے گناہوں کا بھی کچھ بوجھ اپنے اوپر اٹھانا پڑے گا خوب یاد رکھو کہ جس گناہ کو یہ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ برا بوجھ ہے۔ (اور)
وَلَيَحۡمِلُنَّ أَثۡقَالَهُمۡ وَأَثۡقَالاً مَّعَ أَثۡقَالِهِمۡۖ وَلَيُسۡـَٔلُنَّ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ عَمَّا ڪَانُواْ يَفۡتَرُونَ )عنکبوت: ١٣)
اور( البتہ یہ ہوگا کہ) یہ لوگ اپنے گناہ اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ کچھ گناہ اور ․اور یہ لوگ جیسی جیسی جھوٹی باتیں بناتے تھے قیامت میں ان سے باز پرس (اور پھر سزا) ضرور ہو گی۔
میں ہے :’’وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے۔‘‘ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے، گناہ کرنے والے اپنا بوجھ خود اٹھائیں گے۔