Surah Bani Israel Series

GUROOR AUR TAKABBUR | Surah Bani Isra'eel (17) | Hindi/Urdu | Episode 20


Listen Later

[ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَّكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا خوبصورت ہو اور اس کا جوتا خوبصورت ہو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘[مسلم :۹۱]
[مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللّٰهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ]
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی چادر تکبر سے کھینچے۔‘‘
[بخاری: ۵۷۸۴،مسلم : ۲۰۸۵]
وَلَا تَمۡشِ فِى ٱلۡأَرۡضِ مَرَحًا‌ۖ إِنَّكَ لَن تَخۡرِقَ ٱلۡأَرۡضَ وَلَن تَبۡلُغَ ٱلۡجِبَالَ طُولاً (٣٧)
﴿١۴﴾ زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مغرور لوگ عام طور پر چلتے وقت زمین پر زور زور سے پاؤں پٹختے ہیں تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ ہم آرہے ہیں ۔ گردن اوپر اکڑا کر رکھتے ہیں تاکہ اہلِ زمین پر اپنی برتری جتا سکیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ تم بھی زمین پر کیسے ہی اپنے پاؤں پٹخو، کیا اسے چیر سکو گے جبکہ اس کرہٴ خاکی پر تمہارا وجود بالکل ناچیز ہے ۔ یہ تو بالکل اس چیونٹی کی طرح ہے جو بہت بڑے پتھر پر چل رہی ہو اور اپنا پاؤں اس پر پٹخے تو پتھر اس کی حماقت اور کم ظرفی پر ہنسے گاہی۔
تم اپنی گردن کو جتنا بھی اکڑالو کیا پہاڑوں کے برابر ہوسکتے ہو اس طرح تم زیادہ سے زیادہ چند سنٹی میٹر اپنے تئیں اونچا کرسکتے ہے جبکہ اس زمین کے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹی بھی اس کرہ کے مقابلے میں کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتی اور خود زمین پوری گائنات کے مقابلے میں ایک ذرہ بے مقدار ہے ۔ پس تمھارا یہ غرور و تکبر چہ معنی دارد؟
یہ امر قابل توجہ ہے کہ غرور و تکبر ایک خطرناک باطنی بیماری ہے لیکن قرآن نے براہِ راست اس پر بحث نہیں کی بلکہ اس کے ظاہری آثار میں سے بھی سادہ ترین اثرات کی نشاندہی کی ہے اور خود پسند بے مغز متکبروں اور مغروروں کی چال کے بارے میں بات کی ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تکبر و غرور اپنے کمترین آثار کی سطح پر بھی ناپسندیدہ اور شرمناک ہے ۔ نیز یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کی اندرونی صفات جو بھی ہوں وہ چاہے نہ چاہے ان کی جھلک اس کے اعمال میں ضرور نظر آجاتی ہے ۔ اس کی چال ڈھال میں، اس کے دیکھنے کے انداز میں، اس کی بات کرنے کے طریقے میں اور اس کے تمام کاموں میں اس کی اندرونی صفات جھلکتی ہیں ۔ لہٰذا اگر ان صفات کا کچھ بھی اثر اعمال میں نظر آئے تو ہمیں متوجہ ہونا چاہیے کہ خطرہ نزدیک آگیا ہے اور ہمیں فکر کرنا چاہیے کہ اس مذموم عادت نے ہماری روح میں گھونسلا بنالیا ہے لہٰذا ہمیں اس کے خلاف مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔
قرآن کا ہدف یہ ہے کہ غرور و تکبر کی کلّی طور پر مذمت کی جائے نہ کہ اس کے کسی خاص موقع کی یعنی چلنے پھرنے کے انداز کی کیونکہ غرور و تکبر خدا فراموشی، خود فراموشی، فیصلے میں اشتباہ، راہِ حق سے گمراہی، شیطان کے راستے سے وابستگی اور طرح طرح کے گناہوں سے آلودگی کا سرچشمہ ہے ۔
نہ صرف بازار میں چلتے ہوئے ان میں انکساری ہوتی ہے بلکہ زندگی کے تمام امور میں یہاں تک کہ مطالعات فکری میں اور نظریات و افکار کے سفر میں انکساری ان کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے ۔
یغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زندگی اس سلسلے میں ہر مسلمان کے لیے بہت ہی سبق آموز اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ہم بڑھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھتے، غلاموں کی سی سادہ غذا کھاتے، بکری کا دودھ دوہتے اور گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہوتے ۔
یہاں تک کہ جب آپ کے اقتدار کا زمانہ تھا مثلاً فتح مکّہ کے دن بھی اسی طرح کے کام انجام دیتے تھے تاکہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ کسی مقام پر پہنچنے سے غرور پیدا ہوگیا ہے اور آپ بازار کے لوگوں اور ضرورت مندوں سے الگ رہنے لگے ہیں اور محنت کرنے والے عوام سے بیگانہ ہوگئے ہیں ۔

...more
View all episodesView all episodes
Download on the App Store

Surah Bani Israel SeriesBy Quran and Seerat