انسان کے خون کا احترام اور قتل نفس کی حرمت ایسے مسائل ہیں جن میں تمام آسمانی شریعتیں، دین اور انسانی قوانین متفق ہیں اور اس قتل کو ایک بہت بڑا جرم اور گناہ شمار کرتے ہیں لیکن اسلام نے اس مسئلے کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے ۔
یہ بات بڑے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ خون، جان اور انسان کے مقام کا یہ سب احترام جو اسلام میں ہے کسی اور دین و آئین میں موجود نہیں ہے ۔
وَلَا تَقۡتُلُواْ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّۗ وَمَن قُتِلَ مَظۡلُومًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِيِّهِۦ سُلۡطَـٰنًا فَلَا يُسۡرِف فِّى ٱلۡقَتۡلِۖ إِنَّهُۥ كَانَ مَنصُورًا (٣٣)
﴿۹﴾ قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے1 مگر حق کے ساتھ۔2 اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، 3پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے،4 اُس کی مدد کی جائے گی5۔
(1قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے ، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کو بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنےآپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی وشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔
(2بعد میں اسلامی قانون نے قتل با لحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتلِ عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ ۔ تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا ۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔
(3 اصل الفاظ ہیں”اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے“۔ سلطان سے مراد یہاں ”حجت “ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں۔
(4 قتل میں حد سے گزر نے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جو ش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لعش پر غصہ نکالنا، یا خوں بہالینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔
(5 چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو ئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولاگیا کہ اس کی مدد کو ں کریگا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظام ِ عدالت کا کام ہے ۔ کوئی شخص یا گروہ بطورِ خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کےلیے اس سے مدد مانگی جائے۔
#surahbaniisrael #urduseries #episode17 #UrduHindi