Surah Bani Israel Series

Israa and Mi'raj | Surah Bani Israel | Episode 1


Listen Later

سُوْرَةُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل

زمانہ ٴ نزول :

پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔

پس منظر :

اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ١۲ سال گزر چکے تھے۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے۔ مگر ان کی  آپام مزاحمتوں کے با وجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے۔ مدینے میں اوس اور خَزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آلگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کردینے کا موقع ملنے والا تھا۔

ان حالات میں معراج پیش آئی، اور واپسی پر یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا۔


سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔

یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحاً”معراج“اور ”اسراء“کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ررین روایت حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔

قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس)تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتا ئی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔

حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔








...more
View all episodesView all episodes
Download on the App Store

Surah Bani Israel SeriesBy Quran and Seerat