Surah Bani Israel Series

Nooh ek Shukr Guzaar Banda | Surah Bani Israel Series | Episode 3


Listen Later

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔
یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحاً”معراج“اور ”اسراء“کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ررین روایت حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔
قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس)تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتا ئی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔
وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰهُ هُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا (۲)
ہم نے اِس سے پہلے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہٴ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔
معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے، سر سری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سورت کےمدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتین تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آرہا ہے۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے۔
وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے،جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں ، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔
ذُرِّیَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّهُ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا (۳)
تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نُوح ؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا۔
یعنی نوح اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے حیثیت سے تمہارے شایاںِ شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے۔

...more
View all episodesView all episodes
Download on the App Store

Surah Bani Israel SeriesBy Quran and Seerat