سر سید احمد خان کا انشائیہ ’’ خوشامد ‘‘ در اصل ایک روحانی اور اخلاقی بیماری کا اظہار ہے۔ اور وہ ہے خود پسندی، اپنی جھوٹی تعریف پہ خوش ہونا۔ جسمانی بیماریوں کے اثرات کا ظہور اس کے علاج کو دعوت دیتا ہے اس سے ہوتا یہی ہے کہ بیماری کا صفایا آسان ہو جاتا ہے ۔ لیکن کچھ ایسی مضر بیماریاں بھی ہیں جو جسمانی نہ ہوکر روحانی ہوتی ہیں۔ سر سید نے انھیں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے انشائیہ کو ایسی فکر عطا کی جس سے انسانی ذہن بے حد آسان طریقے سے اپنی اور معاشرے کی اصلاح کر سکتا ہے۔ ’’خوشامد ‘‘ایسی خطرنات بیماری ہے جو کسی کو لگ جائے تواُسے تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ سرسید نے اس انشائیے "خوشامد" میں آپ خوشامد کے تمام منفی اثرات سے واقف ہو جائیں گے ۔ سر سید کہتے ہے جس وقت سے ہمیں خوشامد اچھی لگنے لگتی ہے تو یہ ہمارے علاوہ دوسروں کے لئے بھی نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ انسان کسی کی خوشامد کر کے ہر چیز کو حاصل کرنے کی خواہش اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے ۔ خوشامد انسان کے دل کو پگھلا دیتی ہے ، نرم کر دیتی،جس وجہ سے کسی کی کہی ہوئی چھوٹی سی سچی بات جو اس کے برے پہلو پر ایک اچھی نصیحت ہو اُسے کانٹے کی طرح چبھ جاتی ہے۔
خوشامد کی شروعات میں تو یوں ہوتا ھے کہ ہم خود اپنی خوشامد کرنے لگتے ہیں اور خود کو اسکا عادی بنا لیتے ہیں اور اپنی کہی ہوئی ہر بات کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے اَوروں کی خوشامد کرنے لگتے ہیں۔ اَوروں کی خوشامد کرنا اسکو ہم اچھا سمجھنے لگتے ہیں اور خود اپنے ہی دل میں اپنے لئے محبت پیدا کر لیتے ہیں ۔ پھر آہستہ آہستہ یوں ہوتا ہے کہ یہی محبت ہم سے بغاوت کرنے لگتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اورہوتا یہ ہے کہ جو محبت ہم اپنے ساتھ کرتے تھے وہی محبت ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور ہماری یہی محبت ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ خوشامد کسی اور کی کرنا نہایت ہی حق و انصاف ہے۔ خوشامد کرنے سے ہماری باتوں کی قدر گرنے لگتی ہے۔ جسکی وجہ سے ہمارا دل برائی کی جانب نرم ہو جاتا ہے ۔خواشامد کرنے سے ہماری عقل اورسوجھ بوجھ پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ ہماری طبیعت ، ہمارا مزاج کچھ اس طرح کا ہو جاتا ہے کہ ہم ہر کسی کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔
سر سید نے اس عنوان پر بڑی گہرائی سے کلام کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ گر انسان کو اس بات کا علم ہو جائیں کہ خوشامد نالائق اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے پیدا ہوتی ہے تو یقیناًخوشامد کی خواہش کرنے والا ہر شخص خود کو ویسا ہی نالائق تصور کرنے لگے گا۔ یہ خوشامد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو معاشرے میں ایسا پیش کرتا ہے جو در اصل حقیقت میں ہوتا نہیں ۔ اس کی وجہ سے انسان خلوت میں کچھ اور ہوتا ہے اور جلوت میں کچھ اورہوکر رہ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی شخصیت میں دوہرا پن شامل ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ قصارے میں رہتا ہے۔
خودی پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خوشامد انسان کی خودی کو ابھارتی ہے جس کی وجہ سے انسان بدترین باتوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس کے بالمقابل وہ کہتے ہیں کہ سچی تعریف کرنا نہایت ہی عمدہ اور خوب چیز ہے اگر ہم کسی کی سچی تعریف بیان کرتے ہے تو سامنے والا بھی ہماری سچی تعریف بیان کرنے لگے گا اور دونوں کی خوش رہینگے۔ان کے حساب سے نیک نامی کی مثال ایک عمدہ خوشبو کی سی ہے ۔ سچائی انسان کو مہکا دیتی ہے جس کی وجہ سے سماج
میں ہماری حقیقی تعریف ہوتی ہے۔انشائیہ کے آخر میں سب سے اہم بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خوبی ( غیر خوشامدی ہونا) آپ کسی کے اندر زبردستی نہیں ڈال سکتے ۔