
Sign up to save your podcasts
Or


مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
دو پاؤں بنے ہریالی پر
ایک تتلی بیٹھی ڈالی پر
کچھ جگمگ جگنو جنگل سے
کچھ جھومتے ہاتھی بادل سے
یہ ایک کہانی نیند بھری
اک تخت پہ بیٹھی ایک پری
کچھ گن گن کرتے پروانے
دو ننھے ننھے دستانے
کچھ اڑتے رنگیں غبارے
ببو کے دوپٹے کے تارے
یہ چہرہ بنو بوڑھی کا
یہ ٹکڑا ماں کی چوڑی کا
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
السائی ہوئی رت ساون کی
کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی
کچھ ٹوٹی رسی جھولے کی
اک چوٹ کسکتی کولھے کی
سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں
اک چہرہ کتنی آڑوں میں
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی
اک لب پر باتیں نرمی کی
کچھ روپ حسیں کاشانوں کا
کچھ رنگ ہرے میدانوں کا
کچھ ہار مہکتی کلیوں کے
کچھ نام وطن کی گلیوں کے
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ چاند چمکتے گالوں کے
کچھ بھونرے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی
کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک کھوئی کڑی افسانوں کی
دو آنکھیں روشن دانوں کی
اک سرخ دلائی گوٹ لگی
کیا جانے کب کی چوٹ لگی
اک چھلا پھیکی رنگت کا
اک لاکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے
وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ اجڑی مانگیں شاموں کی
آواز شکستہ جاموں کی
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے
کچھ گھنگرو ٹوٹی پائل کے
کچھ بکھرے تنکے چلمن کے
کچھ پرزے اپنے دامن کے
یہ تارے کچھ تھرائے ہوئے
یہ گیت کبھی کے گائے ہوئے
کچھ شعر پرانی غزلوں کے
عنوان ادھوری نظموں کے
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی
اک خشک قلم اک بند گھڑی
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ رشتے ٹوٹے ٹوٹے سے
کچھ ساتھی چھوٹے چھوٹے سے
کچھ بگڑی بگڑی تصویریں
کچھ دھندلی دھندلی تحریریں
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے
کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے
کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے
کچھ اجڑی اجڑی دنیا میں
کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں
یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
By Ahsan Tirmiziمت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
دو پاؤں بنے ہریالی پر
ایک تتلی بیٹھی ڈالی پر
کچھ جگمگ جگنو جنگل سے
کچھ جھومتے ہاتھی بادل سے
یہ ایک کہانی نیند بھری
اک تخت پہ بیٹھی ایک پری
کچھ گن گن کرتے پروانے
دو ننھے ننھے دستانے
کچھ اڑتے رنگیں غبارے
ببو کے دوپٹے کے تارے
یہ چہرہ بنو بوڑھی کا
یہ ٹکڑا ماں کی چوڑی کا
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
السائی ہوئی رت ساون کی
کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی
کچھ ٹوٹی رسی جھولے کی
اک چوٹ کسکتی کولھے کی
سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں
اک چہرہ کتنی آڑوں میں
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی
اک لب پر باتیں نرمی کی
کچھ روپ حسیں کاشانوں کا
کچھ رنگ ہرے میدانوں کا
کچھ ہار مہکتی کلیوں کے
کچھ نام وطن کی گلیوں کے
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ چاند چمکتے گالوں کے
کچھ بھونرے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی
کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک کھوئی کڑی افسانوں کی
دو آنکھیں روشن دانوں کی
اک سرخ دلائی گوٹ لگی
کیا جانے کب کی چوٹ لگی
اک چھلا پھیکی رنگت کا
اک لاکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے
وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ اجڑی مانگیں شاموں کی
آواز شکستہ جاموں کی
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے
کچھ گھنگرو ٹوٹی پائل کے
کچھ بکھرے تنکے چلمن کے
کچھ پرزے اپنے دامن کے
یہ تارے کچھ تھرائے ہوئے
یہ گیت کبھی کے گائے ہوئے
کچھ شعر پرانی غزلوں کے
عنوان ادھوری نظموں کے
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی
اک خشک قلم اک بند گھڑی
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ رشتے ٹوٹے ٹوٹے سے
کچھ ساتھی چھوٹے چھوٹے سے
کچھ بگڑی بگڑی تصویریں
کچھ دھندلی دھندلی تحریریں
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے
کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے
کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے
کچھ اجڑی اجڑی دنیا میں
کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں
یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں
مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

64 Listeners

3 Listeners