مانا وہ دسترس تو لبِ یار تک نہیں
پر ایسا کیا کہ لذتِ گفتار تک نہیں
وہ حُسن جس کی آگ میں ہم لوگ جل گئے
اب اُس کی آنچ خود ترے رُخسار تک نہیں
حائل ہے راستے میں کوئی میرے، ورنہ مَیں
جس گھر میں قید ہوں وہاں دیوار تک نہیں
سَر دے کے اِس طرف سے فراغت نصیب ہے
اب کوئی ہاتھ تو مری دستار تک نہیں
غارت نہ جائے شام یوں میخانہ ڈھونڈتے
وہ شخص رہنما ہے جو میخوار تک نہیں
دیکھا تجھے تو بڑھ گئی ہے اور کچھ طلب
دل کی مراد اب ترے دیدار تک نہیں
دیکھیں تو پھر اُسی میں جئیں عمر بھر اسد
وہ خواب کیا جو ساعتِ بیدار تک نہیں
اسد رحمان