نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لیے وہی پسند فرماتا ہوں، جو خود اپنے لیے چاہتا ہوں۔ خبردار کبھی دو آدمیوں پر بھی حکومت نہ کرنا اور یتیم کے مال کا دیکھ ریکھ نہ کرنا۔ [صحیح مسلم:1826]
پھر فرمایا: وعدہ پورا کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی۔ ناپ تول پورا پورا کیا کرو لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو۔
وَلَا تَقۡرَبُواْ مَالَ ٱلۡيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحۡسَنُ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ أَشُدَّهُۥ ۚ وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولاً (٣٤)
﴿١۰﴾ مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔
احسن یہ کہ ہر طرح اس کی حفاظت کرو، اسے کسی کاروبار میں لگا کر بڑھانے کی کوشش کرو، جب جوان ہو جائے تو اس کا مال اس کے سپرد کر دو، یا اس سے اجازت لے کر کاروبار کرو۔
یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقو ق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی ، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیا ر کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی یاست اپنے اُن تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشاد اَنَاوَ لِیُّ مَنْ لَّا وَلِیَّ لَہُ( میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو)اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ… :
﴿١١﴾ عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔1
اس میں وہ عہد شامل ہے جو اللہ تعالیٰ سے یا بندوں سے کیا جائے، کیونکہ عہد کے متعلق سوال ہو گا اور جو عہد واقرار توڑے گا اسے سزا ملے گی۔
(1 یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو یوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرا یا گیا۔
وَأَوۡفُواْ ٱلۡكَيۡلَ إِذَا كِلۡتُمۡ وَزِنُواْ بِٱلۡقِسۡطَاسِ ٱلۡمُسۡتَقِيمِۚ ذَالِكَ خَيۡرٌ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلاً (٣٥)
﴿١۲﴾ پیمانے سے دو تو پُورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ 2 یہ اچھا طریقہ ہے اور ہلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔3
’’ الْكَيْلَ ‘‘ سے مراد کسی برتن وغیرہ کو پیمانہ بنا کر غلہ وغیرہ کو ماپنا، مثلاً صاع (ٹوپا) اور مد (پڑوپی) وغیرہ۔ وزن کا معنی تولنا، مثلاً کلو وغیرہ۔ ’’اَلْقِسْطَاسُ‘‘ ترازو۔ مجاہد نے فرمایا، رومی میں قسطاس عدل کو کہتے ہیں۔
(2 یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں ناپ تول کی نگرانی کرے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔
یہ اچھا طریقہ ہے اور ہلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے:
انجام کے لحاظ سے بہتر یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس لیے کہ پورے ماپ اور تول کی وجہ سے سب لوگوں کا اس پر اعتماد قائم ہو جائے گا، اس کے کاروبار میں برکت اور ترقی ہو گی۔ رہی آخرت ، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے۔ یہ شخص قیامت کے دن کی رسوائی اور لوگوں کے حقوق کے مطالبہ سے محفوظ رہے گا۔