عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾
ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا ربّ تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم ے جہنّم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔
اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ اُن کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرمادیا گیا تا کہ اُن اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔
إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ يَہۡدِى لِلَّتِى هِىَ أَقۡوَمُ وَيُبَشِّرُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعۡمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمۡ أَجۡرًا كَبِيرًا (٩)
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
یہ ایک ابتدائی اپیل ہے جس کے ذریعے بات اس سورہ کے اہم ترین مقصد کی طرف لوٹ گئی۔ اور وہ مقصد آیتوں اور معجزات کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرنا ہے۔تمام آیتوں میں سب سے بڈا درجہ قرآن کی آیتوں کا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کتابوں کا ذکر کیا جو بنی اسرائیل پر ہدایت اور تنبیہ کے لیے نازل ہوئیں۔ اور ان سزاوں کا ذکر بھی جو ان کی نافرمانی کے نتیجے میں ان کو دیا گیا۔ اور ان کی نافرمانی نوح ؑ کے زمانے سے اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو ترک کرنا ہے۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد مسلمانوں کو وہ غلطی کرنے سے روکنا ہے جو غلطی بنی اسرائیل نے کی تھی۔ قرآن کے قصے بیان کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے اور تاریخ کا بھی یہی فائدہ ہے۔
وَأَنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ بِٱلۡأَخِرَةِ أَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابًا أَلِيمًا (١٠)
اور جولوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔
مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اُس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے۔
وَيَدۡعُ ٱلۡإِنسَـٰنُ بِٱلشَّرِّ دُعَآءَهُۥ بِٱلۡخَيۡرِۖ وَكَانَ ٱلۡإِنسَـٰنُ عَجُولاً (١١)
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔
یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےکہتے تھے کہ بس آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے اللہ کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟
اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک ہلکی تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھر میوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جوآگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے ۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جا تا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تووہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔
0:00 Title of the Video
30:17 Tilawat of Ayat 8-11
1:28 Tafseer of Ayah 8
2:16 Tafseer of Ayah 9
3:33 Tafseer of Ayah 10
4:00 Tafseer of Ayah 11
#surahbaniisrael #urduseries #episode7 #UrduHindi