انسان پر لازم ہے کہ اپنی حد تک پوری تحقیق کر لے کہ میری زبان جو بات کہہ رہی ہے، یا واقعہ بیان کر رہی ہے، یا روایت نقل کر رہی ہے، یا میری عقل جو فیصلہ کر رہی ہے، یا جو کچھ میں نے قطعی طے کیا، یا جو کام میں کرنے جا رہا ہوں اس کا مجھے پورا علم ہے اور میں اس کے نتائج کو پوری طرح جانتا ہوں۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (٣٦)
﴿١۳﴾ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔
گزشتہ آیات میں ہم نے اسلام کی کچھ انتہائی بنیاد ی تعلیمات پڑھی ہیں ۔یہ مسئلہ توحید سے شروع ہوتا ہے کہ جس سے ان تمام تعلیمات کی شروعات ہے اور پھر وہ احکام ہیں کہ جو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلووٴں سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہاں چند مزید اہم احکام کی طرف اشارہ گیا ہے ۔
صرف علم کی پیروی کرو :
پہلے تمام چیزوں میں تحقیق کو ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے :جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کی پیروی نہ کرو (وَلَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ) ۔ نہ اپنے ذاتی عمل میں علم کے بغیر عمل کرو اور نہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ کر تے وقت بغیر علم کے شہادت دو اور نہ ہی علم کے بغیر کوئی عقیدہ و نظریہ قائم کرو۔
لہٰذا ہر چیز کی شناخت کا معیار علم و یقین ہے اور اس کے علاوہ ظن وگمان یا شک و احتمال کچھ بھی اعتماد کے قابل نہیں ہے ۔ جو لوگ ان امور کی بنیاد پر اعتماد کر لیتے ہیں یا فیصلے کر لیتے ہیں یا شہادت دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے ذاتی عمل میں ان کی بنیاد پر قدم اٹھاتے ہیں وہ اس صریح حکم اسلامی کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں اس ممانعت کی دلیل اس طرح بیان کی گئی ہے:”کان، آنکھ اور دل سب کے سب مسئول ہیں“ اور جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں اس کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا: (إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا) ۔
یہ ذمہ داری اس بناء پر ہے کہ جو باتیں انسان علم و یقین کے بغیر کہتا ہے وہ یا اس نے نا قابل اعتماد افراد سے سنی ہوتی ہیں ، یا وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے جبکہ اس نے دیکھا نہیں ہوتا، یا وہ اپنے فکر و خیال کی بنیاد پر بے بنیاد فیصلے کرتا ہے کہ جو حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہوتے ۔ اسی بناء پر اس کی آنکھ، کان اور فکر و عقل سے سوال کیا جائے گا کہ کیا واقعاً تم ان امور کے بارے میں یقین رکھتے تھے کہ تم نے ان کے بارے میں گواہی دی یا فیصلہ کیا یا ان کے معتقد ہوئے اور ان کے مطابق عمل کیا ۔
نظم معاشرہ کے لیے ایک اہم درس
مذکورہ بالا آیت اجتماعی زندگی کے ایک انتہائی اہم اصول کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے نظر انداز کر دینے کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگا کہ معاشرہ مصیبت کا شکار ہوجائے گا انسانی رابطہ ختم ہوجائیں گے اور احساسات کے رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔
اور اگر یہ قرآنی پروگرام تمام انسانی معاشروں میں پوری طرح سے جاری ہوجائے تو بہت سی بدنظمیاں، بے اعتدالیاں اور مشکلات ختم ہوجائیں کہ جن کا سرچشمہ جلد بازی کے فیصلے، بے بنیاد گمان، مشکوک اور جھوٹی خبریں ہوتی ہیں ۔
اگر قرآن کا یہ حکم رائج نہ ہو تو معاشرہ پر فتنہ و فساد کی فضا چھا جائے گی اور کوئی شخص دوسرے کی بدگمانی سے نہیں بچ سکے گا، کسی کو کسی پر اطمینان نہیں ہوگا اور تمام افراد کی عزت و آبرو اور مقام ہمیشہ خطرے میں رہے گا ۔
بہت سی دیگر قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے ۔ مثلاً:
(۱) وہ آیات کہ جو ظن و گمان کی پیروی کرنے کی وجہ سے بے ایمان افراد کی شدید مذمت کرتی ہیں ۔مثلاً:
وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُھُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔
ان میں اکثر اپنے فیصلوں میں صرف ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ظن و گمان انسان کو کسی طرح بھی حق و حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے ۔ (یونس۔۳۶)
(۲) ایک اور مقام پر پیروی ظن کو ہوائے نفس کی پیروی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاٴَنْفُس۔
وہ صرف گمان اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں ۔ (نجم۔۲۳)
(۳) ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں:
إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ
بدگمانی سے بچتے رہو ، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے۔
اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کس طرح انسان کی آنکھ اور کان کو مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ انسان جب تک نہ دیکھے نہ کہے، جب تک نہ سنے فیصلہ نہ کرے اور تحقیق، علم اور یقین کے بغیر کسی چیز کا اعتقاد نہ رکھے اور نہ عمل کرے ۔